کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 47
اور فرمایا: ﴿لِلْفُقَرَآئِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ﴾ (الحشر:۸) ’’(مال فے) ان فقرائے مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھر بار سے نکال دیے گئے ہیں اللہ کا فضل و رضا مندی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، یہی لوگ سچے ہیں ۔‘‘ اصحابِ صفّہ اور دوسرے غریب مسلمان اگر حالات مساعد پاتے تو ضرور کسبِ معیشت کرتے تھے اور اس سے اس چیز میں کوئی خلل نہ پڑتا تھا جو اللہ کی نظر میں کسب سے زیادہ محبوب ہے لیکن اگر اللہ کی راہ میں چلنے کی وجہ سے معیشت کے تمام دروازے بند پاتے اور باوجود کوشش کے مجبور ہو جاتے تو پھر وہ کرتے تھے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت حاصل ہو۔ اصحابِ صُفّہ اسلام کے مہمان تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جو کچھ میسر ہوتا انہیں بھیج دیا جاتا کیوں کہ وہ اکثر اوقات غریب ہوتے تھے اور اتنا نہ رکھتے تھے کہ اپنی روزی پیدا کر سکیں ۔ رہا لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرناتو اس بارے میں ان کا طریقہ وہی تھا، جس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی تربیت کی تھی یعنی مستغنی کے لیے سوال حرام قرار دے دیا تھا، الا یہ کہ اپنا حق مانگتے مثلاً حاکم سے سوال کرے کہ اللہ کے مال میں سے میرا حق دلاؤ۔ رہا محتاج تو اگر کوئی چارۂ کار باقی نہ رہے تو شریعت نے اجازت دی ہے کہ صالحین اور مالداروں سے سوال کرے، بشرطیکہ احتیاج واقعی ہو۔اس باب میں سنت یہ تھی کہ آپ نے اپنے خواص اصحاب رضی اللہ عنہم کو سوال کرنے سے بالکل منع کر دیا تھا حتیٰ کہ ان میں سے اگر کسی کے ہاتھ سے درہ گر جاتا تو کسی سے نہ کہتا تھا’’ اٹھا دو‘‘ اس سلسلہ میں بکثرت احادیث و آثار واقوال