کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 46
فصل (۱):کیا اصحابِ صُفّہ بھیک مانگتے تھے؟ اصحابِ صفّہ اور دوسرے غریب مسلمانوں کی بابت وہی حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاف صاف دے دیا ہے کہ مستحقِ صدقہ اور مستحقِ فے کون لوگ ہیں ۔ فرمایا: ﴿اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْہَا وَ تُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآئَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدٰہُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ اللّٰہِ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَo لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ٗضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا﴾ (البقرۃ:۲۷۱ تا ۲۷۳) ’’ اگر تم اپنی خیرات ظاہر کرو تو اچھا ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور فقیروں کو دے دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور یہ دور کرے گا تم سے تمہاری برائیاں ۔اور جو کچھ مال تم خرچ کرو تمہارے اپنے لیے ہے اور نہ خرچ کرو مگر رضائے الٰہی کے واسطے اور جو کچھ مال خرچ کرو گے تمہیں پورا مل جائے گا اور تم پر ظلم نہ ہو گا۔ خیرات ان فقیروں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں چلنے کی وجہ سے بند کیے گئے ہیں ، زمین پر چل پھر نہیں سکتے،انہیں بے سوالی کی وجہ سے جاہل مالدار خیال کرتا ہے۔ تم انہیں ان کے چہرے سے پہچان لوگے وہ لوگوں سے اصرار کر کے نہیں مانگتے۔‘‘