کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 45
علم و ہدایت کا ہے اور ایک حصہ غلط اور باطل ہے۔ یہی حال خود ان کے اپنے اجتہادات کا ہے، بعض قطعاً باطل ہیں اور بعض درست ہیں ۔ چنانچہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ وغیرہ سے حقائقِ تفسیر میں جو کچھ نقل کیا گیا ہے موضوع ہے۔اسی طرح اشارات کی قسم سے جو حصہ روایت کیا ہے اس میں بعض عمدہ امثال اور اچھے استدلال ہیں اور بعض بالکل لغو وباطل ہیں ۔ غرضیکہ شیخ ابو عبدالرحمن نے اصحابِ صفہ،زُہادِ سلف اور طبقاتِ صوفیہ کے سلسلہ میں جو کچھ جمع کیا ہے اس سے جہاں بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں ، وہاں اس کی باطل روایتوں سے احتیاط و اجتناب بھی ضروری ہے۔ یہی حال تمام فقہاء، زہاد، متکلمین وغیرہ کی روایات و آراء کا ہے۔ طالب حق کو چاہیے کہ ان میں سے وہ چیزیں چن لے جن میں علم و ہدایت و حق ہے کہ جسے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور وہ چیزیں چھوڑ دے جن کی بنیاد فاسد یا مشکوک آراء پر ہے کہ جن کی ان کے ہاں بڑی کثرت [1] ہے۔ لیکن وہ بزرگ جنہیں امت میں لسان صدق کا مرتبہ ملا ہے اور جن کی مدح و ثنا تمام زبانوں پر ہے تو وہ ائمہ ہدیٰ اور مصابیح دجی ہیں ۔ ان کی غلطیاں ان کے حق و صواب کے مقابلہ میں کم ہیں اور جتنی بھی ہیں عموماً اجتہاد کی راہ سے ہیں کہ ان کے عذر مقبول ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جو علم و عدل کی صراط مستقیم پر گامزن ہیں ، ظلم وجہل سے، اتباع ظن سے اور ہو ا ونفس کی پیروی سے کوسوں دور ہیں ۔
[1] ممکن ہے کہا جائے ہم عوام ایسی کتابوں میں حق و باطل کی شناخت کیونکر کریں ؟عذر معقول ہے،لیکن ایسے لوگوں کے لیے بہترین مشورہ یہ ہے کہ اس قسم کی کتابوں ہی سے پرہیز کریں ۔کتاب اللہ اور سنت رسول میں پوری ہدایت موجود ہے۔قرآن نے تمام کتابوں سے مستغنی کر دیا ہے۔