کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 44
کیے ہیں ۔ شیخ نساک کو صوفیہ کے حالات، ان کی معتمد علیہ روایات اور ان کے ماثور اقوال جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔
چنانچہ انہوں نے بزرگانِ سلف خصوصاً ان تمام لوگوں کے حالات جمع کر دیے ہیں جن کے متعلق انہیں معلوم ہوا کہ اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ا نہوں نے ایک نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے جس میں بکثرت قیمتی فوائد ملتے ہیں ۔ وہ خود بھی ایک دیندار اور صالح آدمی تھے۔انہوں نے جو آثار روایت کیے ہیں ان میں بڑا حصہ صحیح ہے لیکن کبھی ضعیف بلکہ موضوع آثار و احادیث بھی یہ جانتے ہوئے کہ وہ غلط ہیں ، روایت کر جاتے ہیں ۔ بعض حفاظِ حدیث نے ان کے سماع میں کلام[1] کیا ہے۔ اسی سبب سے امام بیہقی رحمہ اللہ جب ان سے روایت کرتے تھے توکہتے تھے:
((حدثنا ابو عبد الرحمن من اصل سماعہ))
لیکن ان جیسے صالحین کے بارے میں ان شاء اللہ تعالیٰ یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ قصداً کذب بیانی کی ہو گی بلکہ ہوتا یہ تھاکہ حفظ و مہارت کی کمی کے باعث روایت میں غلطی کر جاتے تھے۔ تمام ناسک و عابد علم میں ہم پلہ نہ تھے۔ بعض حدیث کے حافظ و ماہر تھے جیسے ثابت البنانی، فضیل بن عیاض وغیرہ اور بعض اس درجہ کے نہ تھے اور کمزوری کی وجہ سے روایت میں کبھی غلطی کر جاتے تھے جیسے مالک بن دینار، فرقد سنجی وغیرہ۔ ابو عبدا لرحمٰن کا بھی یہی حال تھا۔چنانچہ متکلمین صوفیہ کے جو اقوال وآثار روایت کیے ہیں ، ان میں ایک بڑا حصہ
[1] حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی تضعیف کی ہے، ابن قطان کا قول ہے کہ وہ صوفیوں کے لیے حدیثیں بنایا کرتے تھے۔ ناظرین متعجب ہوں گے کہ ایسے جلیل القدر لوگ جان بوجھ کر کیوں حدیثیں بناتے تھے ؟ دراصل ان کا موقف یہ تھا کہ اگر نیکی کی ترغیب اور بدی کی ترہیب کے لیے ایک جھوٹی حدیث سے کام نکلتا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ مقصود ہدایت ہے خواہ صحیح حدیث سے حاصل ہو یا ضعیف اور موضوع سے۔ یہی وجہ ہے کہ اس باب میں بے شمار جھوٹی حدیثیں موجود اور واعظوں اور صوفیوں کی زبانوں پر رائج ہیں ۔ لیکن اہل حق اس قسم کے جھوٹ کو بھی اگر چہ کیسے ہی اعلیٰ مقصد کے لیے کیوں نہ ہو، ناجائز بتاتے ہیں ۔