کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 43
ہجرت کرنے والے مسلمان دو قسم کے تھے بعض اہل وعیال کے ساتھ آتے تھے اور بعض تن تنہا نکل کھڑے ہوتے تھے۔انصار انہیں اپنے ہاں مہمان ٹھہراتے تھے۔ کیونکہ انہوں نے بیعت اسی بات پر کی تھی کہ مسلمانوں کو پناہ دیں گے اور ہر طرح کی ہمدردی کریں گے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہاجر آتا اور اس کی مہمانی پر باہم انصار میں جھگڑا ہو جاتا، ہر کوئی اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا، آخر قرعہ کے ذریعہ سے فیصلہ کیا جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار میں اتحاد و مواخات قائم کر دی۔ [الرحیق المختوم، زاد المعاد لابن القیم ] مہاجرین کی تعداد بتدریج بڑھتی رہی کیونکہ اسلام برابر پھیل رہا تھا اور مخلوق دین الٰہی کی حلقہ بگوش ہوتی چلی جاتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار سے بھی بذات خود جہاد کرتے اور کبھی مسلمانوں کی فوجیں بھیجتے تھے، اس سے بھی اسلام کو ترقی ہوئی۔ بہت سے لوگ صدقِ دل سے ایمان لاتے تھے اور بہتیرے اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت سے مرعوب ہو کر ظاہراً مسلمان ہو جاتے تھے۔اس طرح مدینہ میں مہاجرین کی کثرت ہوتی جاتی تھی جن میں امیر، غریب، صاحبِ عیال اور بے عیال سبھی قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ تھا کہ بعض کو رہنے کے لیے کوئی جگہ نہ ملتی تھی اور وہ مجبوراً اس صفہ میں پناہ لیتے تھے جو مسجد میں واقع تھا۔ تمام اہلِ صفہ ہمیشہ اکٹھے نہیں رہتے تھے بعض شادی بیاہ کر کے الگ ہو جاتے اور گھر گھر ہستی بنا لیتے تھے اور بعض زمانہ کی مساعدت کا بدستور انتظار کیا کرتے تھے۔ تمام اہلِ صفہ بیک وقت نہیں آئے تھے،بتدریج آئے تھے اور وقتاً فوقتاً کم زیادہ ہوتے رہتے تھے چنانچہ کبھی دس یا اس بھی کم ہو تے اور کبھی بیس، تیس، چالیس، ساٹھ، ستر تک پہنچ جاتے۔ اصحابِ صفہ( یعنی جنہوں نے مختلف زمانوں میں صفہ میں پناہ لی) کی مجموعی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں ’’ چار سو تھے‘‘ اور بعض اس سے کم بتاتے ہیں ۔ شیخ ابو عبد الرحمٰن سلمی( متوفیٰ ۴۱۲ھ) نے اپنی کتاب ’’اہلِ صفہ‘‘ میں ان کے اسماء و حالات جمع