کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 38
((مَا مِنْ جَمَاعَۃٍ یَجْتَمِعُوْنَ اَلَّا فِیْھِمْ وَلِیُّ اللّٰہِ لَا النَّاسُ تَعْرِفُہٗ وَلَاالْوَلِیُّ یَعْرِفُ اَنَّہٗ وَلِیٌّ۔))؟
کیااولیاء اللہ کی حالت اہلِ علم سے پوشیدہ رہتی ہے؟ ولی کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
ان فقراء سے کون لوگ مراد ہیں جو اغنیاء سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ فقراء کون ہیں جن سے سلوک کرنے کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے؟ آیا وہی لوگ ہیں جو فقر و فاقہ میں مبتلا ہیں ، اپنی روزی نہیں رکھتے یا کوئی اور؟
ابدال کے بارے میں حدیث مروی ہے، کیا وہ صحیح ہے؟ کیا ابدال صرف شام میں ہوں گے یا ہر اس جگہ جہاں کتاب وسنت کے مطابق شعائرِ اسلام قائم ہوں ، عام اس سے کہ شام ہو یا کوئی اور ملک؟
کیا یہ صحیح ہے، کہ ولی مجلس میں بیٹھے بیٹھے نظروں سے اچانک غائب اور اپنے جسم کے ساتھ شام وغیرہ کسی ملک میں پہنچ جاتا ہے؟
ان اسماء والقاب کی بابت علماء کی کیا رائے ہے، جو نیک اور صالح لوگوں کو دیے جاتے ہیں ؟ مثلاً کہتے ہیں فلاں ’’غوث الاغواث‘‘ ہے، ’’قطب الاقطاب‘‘ ہے،’’ قطبِ عالم‘‘ ہے، ’’ قطبِ کبیر‘‘ ہے، ’’ خاتم الاولیاء‘‘ ہے؟
نیز اس قلندریہ فرقہ کے متعلق کیا فتویٰ ہے جو داڑھیاں منڈاتا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کس گروہ میں شمار ہو تا ہے؟ اس کا یہ اعتقاد کیسا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سرکردہ اور شیخ قلندر کو انگور کھلائے اور ا س سے عجمی زبان میں گفتگو کی؟کیا اللہ پر ایمان رکھنے والے مسلمان کے لیے جائز ہے کہ بازاروں اور دیہاتوں میں چلاتا پھرے کہ ’’کس کے پاس فلاں شیخ یا قبر کی نذر اور منت ہے؟‘‘ اس کام میں مدد کرنا گناہ ہے یا نہیں ؟
اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے، جو کہتا ہے کہ ’’ سیدہ نفیسہ[1]مرادوں کا دروازہ اور
[1] اہل بیت سے ہیں اور مصر میں مدفون ہیں ۔