کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 34
بس اسی پر حکام کی کینہ توزی، علماء اور ہم عصر لوگوں کا حسد، منافقین اور فاجرین کی سیہ کاری رنگ لائی اور آپ کو تعذیب و ایذا دہی، قید و بند اور جلا وطنی کے ہر مرحلہ سے گزارا گیا لیکن نہ آپ کے قدموں میں تزلزل آیا نہ آپ جھکے۔ آپ کے اس وقت کے جملے زبان زد خاص و عام تھے: ’’میرے دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں ؟ میری جنت میرے سینے میں ہے اور کہیں بھی جاؤں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتی۔ قید میرے لیے خلوت ہے قتل میرے لیے شہادت ہے اور شہر بدر میرے لیے سیاحت ہے۔‘‘ متددبار جیل گئے۔جیل میں کہا کرتے تھے: ’’محبوس تو وہ ہے جس کا قلب اس کے رب سے روک دیا جائے اور قیدی تو در حقیقت اسے کہیں گے جسے اس کی خواہشات نے قید کرلیا ہو۔‘‘ آپ کی تین سو سے زائد تالیفات ہیں جو مختلف علوم پر مشتمل ہیں ۔ چند تالیفات تو کئی ضخیم جلدوں میں ہیں ۔ آپ کی وفات قلعہ دمشق کی جیل میں ہوئی۔ ۷۲۸ ھ کی ذی القعدہ کی ۲۲ تاریخ تھی۔ آپ پر اللہ کی رحمت سایہ فگن ہو۔