کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 257
حالانکہ ان خود ساختہ ریاضتوں اور مجاہدوں میں پڑنے سے پہلے ان کی حالت بہتر تھی، جن خواہشوں میں وہ مبتلا تھے، تو ان کا معاملہ بہرحال ا ن نئی خواہشوں کی طرح سخت نہ تھا کیونکہ ان خواہشوں کو انہوں نے نہ علم کے مدمقابل کھڑا کیا تھا‘نہ نصوص پر انہیں ترجیح دی تھی اور نہ انہیں اطاعت و دین قرار دیا تھا‘ بلکہ ان کی برائی کے قائل تھے اوراسی وجہ سے وہ غضب الٰہی سے لرزاں و ترساں رہتے تھے۔
لیکن اپنی خود ساختہ ریاضتوں اور مجاہدوں کے بعد جن نئی خواہشوں سے دوچار ہو ئے، انہیں انہوں نے برا نہیں سمجھا بلکہ الٹے عبادت و اطاعت تصور کر کے بے دھڑک ان کے بندے بن گئے اور مراد الٰہی سے بالکل غافل ہو گئے، ایک خواہش چھوڑ دی اور دوسری سے آلودہ ہو گئے، عقلمند آدمی اگر اپنے نفس اور دوسروں کے حالات پر غور کرے تو اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو سکتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ بندے کی جو بات بھی حکم الٰہی کے خلاف ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ مخالف ذوق میں ہو یا ظاہری صورت میں ، تو وہ بات دراصل اس کے نفس کی خواہش اور شہوات ہے‘ جو کوئی اپنی کسی ایسی بات کو حکم الٰہی پر ترجیح دیتا ہے تو وہ اس آدمی سے کہیں زیادہ بد تر ہے جو اپنے قصور کا معترف اور اپنے گناہ کا قائل ہے، وہ جانتا ہے کہ گناہ کر رہا ہے، اس کو یقین ہے کہ امر الٰہی کی اتباع زیادہ اولیٰ ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس گناہ پر توبہ واجب ہے۔
دوسراقاعدہ:
جب کسی فعل یا حال یا ذوق کے بارے میں سوال پیدا ہو کہ صحیح ہے یا فاسد، حق ہے یا باطل‘ تو ایسی صورت میں اسے حجت و دلیل کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول حجت وہی ہے جو خود اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے ماخوذ ہے اور جو کوئی اس اصل پر استوار نہیں اس کا علم اور اس کا سلوک بکواس اور بے فائدہ ہے۔