کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 251
ابن راوندی، فارابی اور ابن سینا وغیرہ۔ اور ابو عبدالرحمن سلمی نے سماع کے بارے میں ابن راوندی کا یہ قول نقل کیا ہے : ’’سماع کے معاملے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ بعض اسے مکروہ بتاتے ہیں ، بعض مباح قرار دیتے ہیں ، لیکن میں اسے واجب سمجھتا ہوں ۔‘‘ ابو نصر فارابی موسیقی کا بہت ماہر تھا۔ اس فن کے جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نے اپنا ایک علیحدہ طریقہ بھی ایجاد کیا تھا،ابن حمدان سے اس کا ایک واقعہ مشہور ہے، لکھا ہے کہ فارابی نے جب اپنی موسیقی شروع کی تو ابن حمدان اور ان کے ساتھی رونے لگے، پھر سب ہنسنے لگے، پھرسب سو گئے اور انہیں سلا کر فارابی اپنی راہ پر چلا گیا۔ اہل سماع اورکواکب پرستوں میں اتحاد: ابن سینا نے اپنی اشارات میں مقامات عارفین بیان کرتے ہوئے سماع کی ترغیب دی ہے اور ظاہری صورتوں کے عشق میں وہ باتیں لکھی ہیں جو اس کے اسلاف کواکب پرست صابئین اور مشرکین کے طریقہ کے بالکل مطابق ہیں ، مثلاً ارسطو اور اس کے یونانی متبعین، برقلس اور تھامسیطوس اور سکندر، فردوسی وغیرہم۔ ارسطو سکندر بن فیلقوس کا وزیر تھا۔ یہ مقدونی شہنشاہ حضر ت مسیح سے تقریباً تین سو سال پہلے گزرا ہے، یہ ذوا لقرنین نہیں ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے اور جس نے سد بنائی تھی، ذو القرنین اس اسکندر سے بہت پہلے گزر چکا ہے، اس کی فتوحات خراسان وغیرہ ممالک تک پہنچی تھیں اور ذوالقرنین تک وہ پہنچ نہیں سکا، ابن سینا کا فلسفہ دراصل اسی یونانی ارسطو کے فلسفہ سے ماخوذ ہے البتہ اس نے اس میں جہمیہ وغیرہ بدعتی فرقوں کی قیل و قال بھی شامل کر دی ہے، ملحد اسماعیلیہ فرقہ کی بہت سی علمی اور عملی ضلالتیں بھی لے لی ہیں اور صوفیہ کے کلام کی اس میں آمیزش کر دی ہے، ابن سینا کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف اسماعیلیہ، قرامطہ اور باطنیہ کی تعلیمات کا علمبردار ہے، اس کا خاندان دراصل مصر کے باطنی فرمانروا حاکم بامر اللہ کا پیرو تھا، اس خاندان کا مذہب وہی تھا