کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 239
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان کیا ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا ہے جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکم سکھاتا ہے۔‘‘ اس آیت میں حکمت سے مراد سنت ہے۔ اور فرمایا: ﴿اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ہٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِیْ حَرَّمَہَا وَ لَہٗ کُلُّ شَیْئٍ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ فَمَنِ اہْتَدٰی فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ﴾ (النمل:۹۲،۹۱) ’’اے رسول! کہہ دو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں جو ہرچیز کا مالک ہے اور حکم دیا کہ مسلمین میں سے ہوں اور قرآن کی تلاوت کروں ۔ پس جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو گمراہ ہو جاتا ہے تو اے رسول کہہ دو کہ میں تو صرف ڈراوا دینے والاہوں۔‘‘ یہی حال دوسرے انبیاء علیہم السلام کا تھا۔ فرمایا: ﴿یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْن﴾ (الاعراف:۳۵) ’’اے بنی آدم! جب میرے رسول تمہارے پاس آئیں گے اور تم پر میری آیات پڑھیں گے تو جو کوئی پرہیز گاری اور نیکی اختیار کرے گا تو اس پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہو گا ۔‘‘ اسی طرح قیامت کے دن بندوں سے سوال کیا جائے گا جیسا کہ فرمایا: ﴿یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ