کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 216
اس مسجد میں ایسے لوگ ہیں جو پاکیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ قبر کو مسجد بنانا: جو مسجدیں انبیاء اور صالحین کی قبروں پر بنائی گئی ہیں ، ان میں ہرگز نمازجائز نہیں اور ان کی تعمیر حرام ہے جیسے کہ اکثر ائمہ نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحاح، سنن اور مسانید میں (حدیث کی کتابوں کی قسمیں ہیں ) مستفیض طور پرثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے’’بے شک جو تم سے پہلے قومیں گزری ہیں ، وہ قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے،میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ تم ایسا مت کرو۔ بے شک میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں فرمایا:’’یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فرمان سے مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امت کو ان افعال سے ڈرانا اور پرہیز کرانا چاہتے تھے اور اگر یہ خوف نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی جگہ میں بنائی جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ آپ کی قبر کو مسجد ٹھہرا لیا جائے ۔‘‘[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حجرۂ مبارک جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں ،مسجد سے خارج تھا، جب ولید بن عبد الملک خلیفہ ہوا تو اس نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو لکھا جو اس کی طرف سے مدینہ کے حاکم تھے کہ ’’مسجد نبوی کے حدود میں وسعت کی جائے۔‘‘ اس نے یہ جگہ خرید کر مسجد میں
[1] مسلم کتاب المساجد:باب النھی عن بناء المساجد علی القبور ح ۵۳۲۔ [2] بخاری کتاب المغازی :باب مرض النبی ووفاتہ ح ۴۴۴۱،۴۴۴۳و مسلم حوالہ سابق ح ۵۲۹،۵۳۱۔