کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 190
بات کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے اور اس کی طرف ان کو توجہ دلاتے، کیونکہ خود بقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی نیکی کی بات ایسی نہیں رہ گئی جس کو آپ نے بیان نہ فرمایا ہو اور کوئی برائی کی بات نہیں جس سے آپ نے اپنی امت کو منع نہ فرمایا ہو۔کوئی بات جو جنت اور اللہ کی خوشنودی کی طرف لے جانے والی ہو، یا انسان کو دوزخ کی آگ سے بچانے اور دور رکھنے میں مدد دے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیے بغیر نہیں چھوڑی۔ [1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ایک واضح راستے پر چلایا، جس پر رات کو بھی روزِ روشن کی طرح چل سکتے ہیں ، جو شخص بھی اس کو چھوڑ کر دوسری طرف چلے گا اس کاانجام یقینا ہلاکت ہے۔
صریح ممانعت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس نوعیت کی باتوں سے صریحاًمنع فرمایا ہے اور قبروں کو سجدہ گاہ ٹھہرانے کے فعل کو مستوجب لعنت قرار دے کر ان شرکیہ امور کا سدِباب فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ذرائع کو روکنے کے اصول پر کاربند ہو کر اس بارے میں اس حد تک احتیاط کو ضروری سمجھا کہ قبر کی طرف منہ کر کے اللہ تعالیٰ کے لیے بھی نماز پڑھنا منع فرمایا[2] چاہے نمازی کے دل میں غیر اللہ کی عبادت کا خیال تک نہ ہو۔
حفظِ ما تقدم:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آفتاب کے طلوع اور غروب کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کے لیے نماز پڑھنے سے منع فرمایا [3] کہ ان اوقات میں بعض بت پرست سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔[4]
[1] الصحیحۃ (۱۸۰۳) بحوالہ طبرانی فی الکبیر (۱۶۴۷)۔ مجمع الزوائد (۷/۲۶۳) بیھقی (۸/۷۶) عبدالرزاق (۱۱/۱۲۵)۔
[2] مسلم، کتاب الجنائز:باب النھی عن الجلوس علی القبور و الصلاۃ علیہ ح ۹۷۲۔
[3] بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ:باب الصلاۃ بعد الفجر، ح ۵۸۱، ۵۸۲، مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین :باب الاوقات التی نہی عن الصلاۃ فیھا، ح ۸۲۶،۸۲۸۔
[4] مسلم کتاب صلاۃ المسافرین :باب اسلام عمرو بن عبسۃ رضی اللہ عنہ ح ۸۳۲۔