کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 185
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اس بات کے کہنے سے یہ تھا کہ وہ اپنی امت کو ان کے افعال سے ڈرائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے ’’ تم سے پہلی قومیں اپنے انبیاء کی قبور کو سجدہ گاہ ٹھہرا لیتی تھیں لیکن تم ایسا مت کرو، میں تمہیں اس سے منع کر تاہوں ۔‘‘[1]
ایک دوسری حدیث میں ہے’’ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو قبروں کو مسجد بنا لیتے ہیں ۔‘‘[2]
اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو قبروں کی زیارت کرتی ہیں ۔ [3] نیز ان پر بھی لعنت ہے جو قبروں پر مسجدیں بناتے اور ان پر چراغ جلاتے ہیں۔[4]
نتیجہ بحث:
اب جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو مسجد بنالینے اور سجدہ گاہ ٹھہرانے سے منع فرمایا ہے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ ان کے پاس جاکر دعاکرنا مستحب نہیں ہو گا، کیونکہ جس جگہ پر دعا مستحب ہے، وہاں نماز پڑھنا بھی مستحب ہے۔نماز پڑھ کر دعاکرنا زیادہ قبولیت کا باعث ہے اور شریعت میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں دعا کرنا مستحب ہو اور نماز پڑھنا مستحب نہ ہو۔
قبروں کے پاس نماز نہ پڑھنے کی حکمت:
امام شافعی اور دوسرے ائمہ رحمہم اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قبروں کے پاس
[1] مسلم حوالہ سابق، ح۵۶۸۔
[2] بخاری کتاب الصلاۃ :باب الصلاۃ فی البیعۃ ح ۴۳۴، مسلم حوالہ سابق ح۵۲۸۔
[3] ترمذی کتاب الجنائز: باب ما جاء فی کراھیۃ زیارۃ القبور للنساء ح ۱۰۵۶، ابن ماجہ، کتاب الجنائز: باب ما جاء فی النھی عن زیارۃ النساء القبور ح ۱۵۷۵،بلفظ لعن رسول اللہ۔۔۔۔وانظر الحدیث الاتی۔
[4] ابوداؤد ، کتاب الجنائز :باب فی زیارۃالنساء القبور، ح ۳۲۳۶، ترمذی ح ۳۲۰، نسائی ۲۰۴۵ یہ اضافہ والی روایت ضعیف ہے۔ (تحذیر الساجد ص ۶۲)۔