کتاب: رسائل ابن تیمیہ - صفحہ 171
﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ ہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ﴾ (القصص:۵۶) ’’اے پیغمبر! تو جس کے ساتھ محبت رکھتاہو اسے ہدایت دینا تیرے اختیار میں نہیں ہے بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور وہی ہدایت والوں کو جانتا ہے۔‘‘ پس یہ عموم علم اور عموم قدرت کا اعتقاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی جائز نہیں ۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا۔ چنانچہ فرمایا: ((مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔)) ’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ اور ہمیں حکم دیا کہ آپ کی پیروی کریں ۔ فرمایا: ﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾(آل عمران:۳۱) ’’اے پیغمبر! ان سے کہہ دو کہ اگر اللہ سے دوستی کرنا چاہتے ہو تومیری پیروی کرو پھر تم کو اللہ دوست بنا لے گا۔‘‘ اور ہمیں حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقویت و نصرت کریں اور عزت و احترام کریں اورہمارے ذمے آپ کے بہت سے حقوق لازم کیے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے اور سنت نبوی میں ان کی توضیح ہے یہاں تک کہ ہم پر واجب کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نزدیک ہمارے نفسوں اوراہل و عیال سے بھی زیادہ محبوب اور پیارے ہوں ۔ چنانچہ فرمایا: ﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ﴾ (الاحزاب:۶) ’’مومنین کے لیے ان کے نفسوں سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ قریب ہیں ۔‘‘ ﴿قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ