کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 97
دیر پہلے بالکل آخری وقت میں کھایا کرتے تھے۔ روزے داروں کے لیے اس طریق نبوی کو اپنانے میں بڑے فائدے ہیں ، مثلاً: فجر کی نماز میں سستی نہیں ہوتی۔ سحری سے فراغت کے فوراً بعد نماز فجر کا وقت ہو جاتا ہے۔ انسان آسانی سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہے 2. اور روزے کی ابتدا اور انتہا کے درمیان وقفہ کم ہوجاتا ہے جس سے روزے دار کو سہولت مل جاتی ہے، وغیرہ۔ 3. شوگر کے مریضوں کو بھی ڈاکٹر یہی ہدایت دیتے ہیں کہ وہ سحری بالکل آخری وقت کھائیں تاکہ روزہ پورا کرنے میں انہیں آسانی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’صوم و صال ‘‘یعنی بغیر کچھ کھائے پیے مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔[1] 5. روزہ کھولنے میں جلدی کرنا نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ روزہ کھولنے میں تاخیر نہ کی جائے بلکہ جلدی کی جائے۔ جلدی کا مطلب، سورج کے غروب ہونے سے قبل روزہ کھولنا نہیں ہے بلکہ سورج کے غروب ہونے کے بعد بلاتاخیر فوراً روزہ کھولنا ہے۔ جیسے بعض لوگ سورج غروب ہونے کے بعد اتنا اندھیرا چھا جانے کو ضروری سمجھتے ہیں کہ تارے نظر آنے لگ جائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہودونصاریٰ کا یہی معمول تھا۔ اس لیے آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم یہودونصاریٰ کے برعکس سورج کے غروب ہوتے ہی
[1] صحیح البخاري، الصیام، باب الوصال، ح : 1962۔ صحیح مسلم، باب النھي عن الوصال، حدیث : 1104۔