کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 81
اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی سرکشی کا زور توڑنے کے لیے روزہ ممدومعاون ہے۔ اسی لیے ایک اور حدیث میں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو ایک نفع بخش عمل قرار دیا۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ((قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مُرْنِي بِأَمْرٍ یَنْفَعُنِيَ اللّٰہُ بِہِ، قَالَ: ’عَلَیْکَ بِالصِّیَامِ فَإِنَّہُ لَا مِثْلَ لَہُ)) میں نے کہا، اللہ کے رسول! مجھے ایسا کام بتلایئے جو مجھے نفع دے۔ آپ نے فرمایا: ’’روزے رکھا کرو، اس کی مثل کوئی چیز نہیں ۔‘‘[1] 3. روزے سے صبر کا وصف راسخ ہوتا ہے صبر بھی ایک ایسا اہم عمل ہے کہ اس کے بغیر دین پر عمل اور ایمانی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ۔ صبر کا وصف ہی انسان کے اندر ایسا حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ساری دنیا سے لڑنے اور باطل قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ صبر کے مفہوم میں حسب ذیل چیزیں شامل ہیں : 1. اپنے نفس پر کنٹرول کرکے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے اور اس کی معصیت سے بچنا۔ 2. اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی لذتوں اور اس کے حیوانی تقاضوں کو نظر انداز کردینا۔
[1] سنن النسائي، الصیام، باب فضل الصیام،حدیث: 2223۔