کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 68
کو تنقیح الرواۃ اور پھر مرعاۃ المفاتیح میں بھی نقل کیا گیا ہے، جس سے اس روایت کا ضعف بالکل واضح ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا علم چند اہل علم و تحقیق تک ہی محدود رہا۔ عام علماء و واعظ حضرات اس حدیث کو بیان ہی کرتے رہے۔ اللہ بھلا کرے شیخ البانی رحمہ اللہ کا کہ پھر انہوں نے بھی اپنی تعلیقات مشکاۃمیں اس کے ضعف کی صراحت کی۔ شیخ البانی کی تالیفات اور تحقیقات کو اللہ نے اہل علم و تحقیق کے حلقوں میں جو حسن قبول عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے اس روایت کے ضعف کا علم عام ہوا کیونکہ شیخ البانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہونے والی مشکاۃبھی اہلِ علم میں متداول ہے۔ مشکاۃ پر شیخ البانی کی مختصر تعلیقات و تحقیقات کا یہ بڑا فائدہ ہوا کہ مشکاۃکی متعدد احادیث، جو ضعیف تھیں اور لوگ انہیں بے دھڑک بیان کرتے تھے، اب ان کے ضعف سے اہل علم کی اکثریت واقف ہوتی جارہی ہے۔ اور شیخ کی اس کاوش و تحقیق سے نقد حدیث کا ذوق بھی عام ہوا اور احادیث کی تحقیق و تخریج کے رجحان کو بھی بڑا فروغ ملا ہے۔ جزاہ اللّٰہ عنا و عن جمیع المسلمین خیر الجزاء۔ بہرحال مقصود اس تفصیل سے یہ ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے جو مذکورہ حدیث مشہور ہے، سند کے لحاظ سے بالکل ضعیف ہے۔ ایسی سخت ضعیف حدیث کا بیان کرنا صرف ناجائز ہی نہیں ہے بلکہ اندیشہ ہے کہ اس کا بیان کرنے والا ((مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ))[1] جیسی وعید کا مستحق نہ بن جائے۔
[1] صحیح البخاري، العلم، باب إثم من کذب علی النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم ، حدیث : 110۔