کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 61
(( اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَۃُ إِلَی الْجُمُعَۃِ، وَ رَمَضَانُ إِلٰی رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتُ مَا بَیْنَہُنَّ، إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ)) ’’پانچوں نمازیں ، جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘[1] ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، کَانَ کَصِیَامِ الدَّہْرِ)) ’’جس نے رمضان کے (فرضی) روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں چھ (نفلی) روزے رکھے، وہ شخص ایسے ہے جیسے وہ ہمیشہ روزے رکھنے والا ہے۔‘‘[2] اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے روزے اَلْحَسَنَۃُ بِعَشْرِأَمْثَالِھَا کے تحت تین سو (300) اور چھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر شمار ہوں گے اور قمری سال کے تین سو ساٹھ (360) دن ہی ہوتے ہیں ۔ یوں گویا ایک مسلمان صائم الدھر ( ہمیشہ روزہ رکھنے والا ) شمار ہوگا۔ اس اعتبار سے شوال کے یہ چھ روزے، جن کوشش عیدی کہا جاتا ہے، نفلی ہونے کے باوجود نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہر مسلمان کو رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ یہ چھ روزے بھی رکھ لینے چاہئیں تاکہ وہ عنداللّٰہ صائم الدھر شمار ہو۔
[1] صحیح مسلم، الطھارۃ، باب الصلوات الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ… الخ،حدیث: 233۔ [2] صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صوم ستۃ أیام من شوال… الخ،حدیث: 1164۔