کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 58
یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿ مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾[1]، یعنی نیکی کا صلہ کم از کم دس گنا ہے۔ اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ سات سو گنا تک ملے گا۔ لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس عام ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرمادیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی جزاء عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہوگی۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:اَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ ’’کون سا عمل افضل ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: (( عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّہُ لَاعِدْلَ لَہُ)) ’’تم روزوں کا اہتمام کرو، اس لیے کہ اس کی مثل کوئی عمل نہیں ۔‘‘[2] یہ تمام احادیث، جو بیان ہوئیں ، روزوں کی فضیلت میں عام ہیں ، یعنی ہر قسم کے روزے ان کے ضمن میں آجاتے ہیں ، چاہے وہ رمضان کے فرضی روزے ہوں یا رمضان کے علاوہ دیگر نفلی روزے۔ مذکورہ فضیلتیں ہر قسم کے روزہ دار کے لیے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے خاص بندے صرف رمضان ہی کے فرضی روزے نہیں رکھتے بلکہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ہر وقت نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں ، جیسا
[1] الأنعام 160:6۔ [2] سنن النسائي، الصیام، باب: 43، حدیث: 2224، و سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، للألباني:4/ 574، تحت رقم: 1937۔