کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 40
روزے پورے رمضان کے روزے ہی شمار ہوں گے کیونکہ مہینہ کبھی29 دن کا بھی ہوتا ہے، البتہ 28 یا 31 دن کا نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دن لمبا ہوجائے، مثلاً:ایک شخص روزے کی حالت میں غروب شمس کے قریب سفر کا آغاز کرتاہے لیکن وہ جس ملک کی طرف سفر کررہا ہے وہاں سورج تاخیر سے غروب ہوتاہے، بنابریں اس کا دن گھنٹہ یا دو گھنٹہ لمبا ہوجائے، تو ظاہر بات ہے کہ وہ راستے میں روزہ اسی وقت افطار کرے گا جب سورج کے غروب ہونے کا یقین ہوجائے گا چاہے اپنے ملک کے مقابلے میں اس کا روزہ کچھ لمبا ہوجائے۔ علاوہ ازیں اس کے برعکس دن چھوٹا بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کو سہولت مل جائے گی اور معمول سے کچھ دیر پہلے روزہ افطار کرلے گا۔ گویا جس طرح روزہ افطار کرنے کے لیے غروبِ شمس کا تیقُّن ضروری ہے چاہے دن کچھ لمبا یا کچھ چھوٹا ہوجائے اسی طرح ایک مسلمان جس ملک میں بھی جائے گا، وہاں کی رؤیت کے مطابق ہی اسے عید الفطر کرنی ہوگی، یعنی روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر وہاں کی رؤیت پر اس کے روزے پورے 29 یا 30 ہوجاتے ہیں تو فبھا، اور اگر 31ہوجاتے ہیں تو ایک روزہ نفلی ہوجائے گا لیکن وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ اس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہوگا اور 28 ہوں گے تو ایک روزہ عید الفطر کے بعد رکھنا ہوگا کیونکہ حکم ہے: ((الصَّوْمُ یَوْمَ تَصُومُونَ، وَ الْفِِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُونَ، وَالْأَضْحٰی یَوْمَ تُضَحُّونَ)) ’’روزے کا وہ دن ہے جس دن تم روزہ رکھو اور روزہ افطار (عید) کرنے کا وہ