کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 38
ہوتا، انہیں چاہیے کہ اس سلسلے میں ان اسلامی ملکوں پر اعتماد کریں جو چاند کے سلسلے میں کسی حساب کے بجائے صرف اور صرف رؤیتِ بصری پر اعتماد کرتے ہیں تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل ہوسکے کہ ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار (روزہ رکھنا ترک اور عید) کرو۔‘‘[1] اس فتویٰ کی رُو سے ایسے علاقوں کے لوگوں کے لیے جہاں مطلع اکثر ابر آلود رہتا ہے اور چاند کا دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، ایسے علاقوں کی رؤیت کے مطابق رمضان و شوال کا آغاز کرنا جائز ہے جہاں شریعت کے مطابق رؤیت بصری پر فیصلہ کیا جاتا ہے، جیسے، مثلاً: سعودی عرب، پاکستان وغیرہ ہیں ، گویا محض فلکیات پر اعتبار کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح شرعی حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے جو کسی مسلمان کے شایاں نہیں ہے۔ ہمیشہ 30 روزے رکھنا بھی جائز نہیں علاوہ ازیں ایسے علاقوں کے لوگوں کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ یہ سوچ کر کہ ہمیں چاند تو نظر ہی نہیں آتا، ہمیشہ 30 روزے رکھتے رہیں اور کسی بھی ملک کی رؤیت بصری پر اعتماد نہ کریں ۔ کیونکہ اس طرح بھی قانونِ الٰہی کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس لیے کہ مہینہ اللہ ہی کے حکم سے کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے اور وہ دنوں کی اس کمی بیشی کو اپنے طور پرختم کردیں تو یہ یقینا حدودِ الٰہی سے تجاوز ہوگا۔ ﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾[2]
[1] فتاویٰ اسلامیہ:2/ 160,159، مطبوعہ دارالسلام۔ [2] البقرہ 229:2۔