کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 36
اللّٰہِ صلي اللّٰہُ عليه وسلم النَّاسَ أَنْ یُفْطِرُوا، زَادَ خَلَفٌ في حَدِیثِہِ: وَ أَنْ یَغْدُوا إِلٰی مُصَلَّاہُمْ)) ’’ رمضان کے آخری دن کی بابت لوگوں کا اختلاف ہوگیا تو دو اعرابی (دیہاتی) آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھاکر کہا کہ انہوں نے (گاؤں سے مدینہ آتے ہوئے) کل شام کو چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزے توڑلیں ۔ اور حدیث کے ایک راوی خَلَف کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ نے حکم فرمایا: ’’اگلے دن صبح کو (نماز عید کے لیے) عیدگاہ جائیں ۔‘‘ یہ دونوں حدیثیں ابوداود کے اس باب میں موجود ہیں جس کا حوالہ پہلے گزرا ہے (احادیث نمبر ہیں : 2339,2338) پہلی حدیث میں دو گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنے کا حکم ہے اور دوسری حدیث میں دو گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنے کی عملی مثال ہے۔ پہلی حدیث میں حج کے ارکان کی ادائیگی، یعنی ذوالحجہ کے چاند کی صراحت ہے اور دوسری حدیث میں ہلالِ شوال کا ذکر ہے۔ ان دونوں حدیثوں سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک کے چاند کے علاوہ دیگر مہینوں کے اثبات کے لیے دو عادل مسلمان گواہوں کی گواہی ضروری ہے اور رمضان کے لیے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ عادل، جس کی گواہی معتبر ہے، کون ہے؟ عادل کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان متقی، احکام وفرائض اسلام کا پابند ہو اور کوئی واضح