کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 34
کرسکتے ہیں ۔ اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ رؤیت کا اثبات کس طرح ہوگا؟ ظاہر بات ہے کہ ہر شخص کو تو دیکھنے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے علماء کے ایک گروہ کی رائے تو یہ ہے کہ ایک عادل مسلمان کی گواہی سے رؤیت کا اثبات ہوجائے گا۔ امام شوکانی اور صاحبِ ’’فقہ السنۃ‘‘ وغیرہم نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ دوسرے علماء کی رائے ہے کہ رمضان المبارک کے لیے ایک عادل مسلمان کی گواہی اور رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں (شوال، ذوالحجہ وغیرہ) کے لیے دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ شرعی نصوص کی رُو سے یہ دوسری رائے راجح ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں : (( تَرَائَ ی النَّاسُ الْہِلَالَ فَـأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنِّي رَأَیْتُہُ، فَصَامَ وَ أَمَرَ النَّاسَ بِصِیَامِہِ)) ’’لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی (لیکن میرے سوا کسی کو نظر نہیں آیا) چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کے لیے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے۔ امام ابوداود نے بھی جو باب باندھا ہے اس کا ترجمہ بھی یہ ہے کہ ’’رمضان کے چاند کے اثبات کے لیے ایک شخص کی گواہی کا بیان‘‘ اور اس کے تحت مذکورہ حدیث بیان کی ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
[1] سنن أبيداود، الصیام، باب في شہادۃ الواحد علٰی رُؤیَۃ ہلال رمضان، حدیث: 2340۔