کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 258
ہیں ، ہمارا بچپن جس قدر حیرت انگیز اورجوانی کی طاقتیں جس درجہ زلزلہ انگیز تھیں ، دیکھتے ہیں تو بڑھاپے کے ضعف و نقاہت کو بھی اتنا ہی تیز پاتے ہیں ، شاید اس کے بعد اب منزل فنا درپیش ہے، چراغ تیل سے خالی ہوتا جاتا ہے اور چولہا خاکستر سے بھرتا جاتا ہے گزشتہ باتوں کی صرف ایک یاد رہ گئی ہے اور جوانی کے افسانے خواب و خیال معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ہمیں مٹنا ہی ہے تو مٹنے میں دیر کیوں ہے؟ صبح فنا آگئی ہے تو شمع سحر کو بجھ ہی جانا چاہیے۔ جس بزم اقبال و عظمت میں اب ہمارے لیے جگہ نہیں رہی، بہتر ہے کہ اوروں کے لیے اسے خالی کر دیں ۔ ہم نے ایک ہزار برس سے زیادہ عرصے تک دنیا میں زندگی کے اچھے برے دن کاٹے اور ہر طرح کی لذتیں چکھ لیں ، حکمرانی کے تخت پر بھی رہے اور محکومی کی خاک پر بھی لوٹے، علم کی سرپرستی بھی کی اور جہل کی رفاقت میں بھی رہے۔ جب عیش و عشرت کی بزم آرائیوں میں تھے تو اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے اور اب حسرت و آرزو کے غم کدے میں ہیں تو اس میں بھی ایک شان یکتائی رکھتے ہیں ۔ زمانے نے ہمارے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے تواب دیر نہ کرے لیکن گو ہم مٹ جائیں گے مگر ہمارے بٹھائے ہوئے نقشوں کا مٹانا آسان نہ ہو گا۔ تاریخ ہم کو کبھی نہ بھلا سکے گی اور ہمارا افسانۂ عبرت ہمیشہ مسافران عالم کو یاد آ آ کر خون کے آنسو رلائے گا۔ گو کہ ہم صفحۂ ہستی پہ تھے اک حرف غلط لیک اٹھے بھی تو اک نقش بٹھا کے اٹھے رات کے پچھلے پہر کی تاریکی اور سناٹے میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ، میرا قلب مضطر اور آنکھیں اشکبار ہیں ، آفتاب عید کے اشتیاق میں خفتگانِ انتظار کروٹیں بدل رہے