کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 257
قوموں کی زندگی کا بھی یہی حال ہے، ایک قوم پیدا ہوتی ہے بچپنے کا عہدِ بے فکری کاٹ کر جوانی کی طاقت آزمائیوں میں قدم رکھتی ہے، یہ وقت کاروبار زندگی کا اصلی دور اور قومی صحت و تندرستی کا عہد نشاط ہوتا ہے۔ جہاں جاتی ہے اوج و اقبال اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جس طرف قدم اٹھاتی ہے دنیا اس کے استقبال کے لیے دوڑتی ہے۔ لیکن اس کے بعد جو زمانہ آتا ہے اس کو پیری و صدعیب کا زمانہ سمجھیے کہ قوتیں ختم ہونے لگتی ہیں اور چراغ میں تیل کم ہونا شروع ہو جاتا ہے، طرح طرح کے اخلاقی اور تمدنی عوارض روز بروز پیدا ہونے لگتے ہیں ، جمعیت و اتحاد کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، اجتماعی قوتوں کا اضمحلال نظام ملت کو ضعیف و کمزور کر دیتا ہے۔ وہی زمانہ جو کل تک اس کی جوانی کی طاقت کے آگے دم بخود تھا۔ آج اس کے بستر پیری کے ضعف و نقاہت کو دیکھتا ہے تو ذلت و حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے۔ قرآن کریم نے اسی قانون خلقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
﴿ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ﴾
’’اور وہ قادر مطلق ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا، پھر بچپنے کی کمزوری کے بعد جوانی کی طاقت دی، پھر طاقت کے بعد دوبارہ کمزوری اور بڑھاپے میں ڈال دیا، وہ جس حالت کو چاہتاہے پیدا کر دیتا ہے اور وہی تمھاری تمام حالتوں کا علیم اور ہر حال کا ایک اندازہ کرنے والا ہے۔‘‘[1]
شاید ہماری جوانی کا عہد ختم ہو چکا اب ’’صد عیب و پیری‘‘ کی منزل سے گزر رہے
[1] الروم30:54۔