کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 256
قومی زندگی کی مثال بالکل افراد و اشخاص کی سی ہے۔ بچپنے سے لے کر عہد شباب تک کا زمانہ ترقی و نشوونما وعیش و نشاط کا دور ہوتا ہے، ہر چیز بڑھتی ہے اور ہر قوت میں افزائش ہوتی ہے جو دن آتا ہے طاقت و توانائی کا ایک نیا پیام لاتا ہے، طبیعت جوش و امنگ کے نشے میں ہر وقت مخمور رہتی ہے اور اس سرخوشی و سرور میں جس طرف نظر اٹھتی ہے۔ فرحت و انبساط کاایک بہشت زار سامنے آجاتا ہے، اس طلسم زار ہستی میں انسان سے باہر نہ غم کا وجود ہے اور نہ نشاط کا، البتہ ہمارے پاس دو آنکھیں ضرور ایسی ہیں جو اگر غمگین ہوں تو کائنات کا ہر ظہور غم آلود ہے اور اگر مسرور ہوں تو ہر منظر مرقع انبساط ہے، عہد شباب و جوانی میں آنکھیں سرمست ہوتی ہیں اور دل جوش و امنگ سے متوالا، غم کے کانٹے بھی تلوے میں چھبتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ فرش گل پر سے گزر رہے ہیں ، خزاں کی افسردگی بھی سامنے آتی ہے تو نظر آتا ہے کہ عروس بہار سامنے آکر کھڑی ہو گئی ہے، دل جب خوش ہو تو ہر شئے کیوں نہ خوش نظر آئے؟ لیکن بڑھاپے کی حالت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے پہلے جو چیزیں بڑھتی تھیں اب روز بروز گھٹنے لگتی ہیں ، جن قوتوں میں ہر روز افزائش ہوتی تھی اب روز بروز اضمحلال ہوتا ہے، طاقت جواب دے دیتی ہے اور عیش و مسرت کنارہ کش ہو جاتے ہیں جو دن آتا ہے موت و فنا کا ایک پیغام لاتا ہے اور جو دن گزرتا ہے حسرت و آرزو کی ایک یادچھوڑ جاتا ہے، دنیا کے سارے عیش و عشرت کے جلوے دل کی عشرت کامیوں سے تھے لیکن دل کے بدلنے سے آنکھیں بھی بدل جاتی ہیں ۔ پہلے غم کی تصویر بھی شادمانی کا مرقع نظر آتی تھی اب خوشی کے شادیانے بھی بجتے ہیں تو ان میں سے دردو اندوہ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں ۔