کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 254
ہوں اور میں افسانۂ غم چھیڑ کر آپ کی لذت عیش کو منغص کر دوں مگر یقین کیجیے کہ اپنے دل اندوہ پرست کی بے قراریوں سے مجبور ہوں ۔ قاعدہ ہے کہ ایک غمگین دل کے لیے عیش کی گھڑیوں سے بڑھ کر اور کوئی وقت غم کے حوادث کا یاد آور نہیں ہوتا، ایک غم زدہ ماں جو سال بھر کے اندر اپنے کئی فرزندوں کو کھو چکی ہو اگر عید کے دن اس کو اپنی بقیہ اولاد کے چہرے دیکھ کر خوشی ہو گی تو ایک ایک کر کے اس کے گم گشتہ لخت جگر بھی سامنے آجائیں گے۔ ایک بدبخت جو اپنا تمام مال و متاع غفلت و بے ہوشی میں ضائع کر چکا ہو۔ عید کے دن جب لوگوں کی زریں قباؤں اور پُر جواہر کلاہوں کو دیکھے گا تو ممکن نہیں کہ اس کواپنی کھوئی ہوئی دولت کے سازوسامان یاد نہ آجائیں ۔ دیکھتا ہوں تو یہ جشن کی عیدیں عیش و مسرت کا پیام نہیں بلکہ یاد آور دردو حسرت ہیں ۔ آہ! کیا دنیا میں غفلت و سرشاری کی حکومت ہمیشہ سے ایسی ہی ہے؟ کیا دنیا میں ہمیشہ نیند زیادہ اور بیداری کم رہی ہے؟ یہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایک دن کی خوشیوں میں بے خود ہو کر ہمیشہ کے ماتم و اندوہ کو بھول گئے ہیں ؟ بزم جشن کی تیاریاں کس کے لیے جبکہ دنیا اب ہمارے لیے ایک دائمی ماتم کدہ بن گئی ہے؟ عیش و نشاط کی بزموں کو آگ لگایئے، عید کے قیمتی کپڑوں کو چاک چاک کر ڈالیے، عطر کی شیشیوں کو اپنے بخت زبوں کی طرح الٹ دیجیے اور اس کی جگہ مٹھیوں میں خاک و گرد بھر بھر کر اپنے سراورسینے پر اڑایئے، زریں کلاہوں اور ریشمی قباؤں کے پہننے کے دن اب گئے۔ ماخانۂ رمیدگان ظالمیم پیغام خوش از دیارِما نیست لیکن اس طلسم سر ائے ہستی کی ساری رونق انسان کی غفلت و سرشاری سے ہے،