کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 252
افتخار نے کیونکر ہمیں برکات الٰہی کا مہبط و مورد بنایا؟ اس دن کا آفتاب جب نکلتا تھا تو ہمیں خبر دیتا تھا کہ کس طرح اللہ کی زمین نافرمانیوں کی ظلمت سے تاریک ہو گئی تھی اور پھر کس طرح ہمارے اعمال کی روشنی افق عالم پر نیر درخشاں بن کر نمودار ہوئی تھی لیکن: ﴿ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا﴾ ’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنھوں نے اللہ کی عبادت کو ضائع کر دیا اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے پس بہت جلد ان کی گمراہی ان کے آگے آئے گی۔‘‘[1] اب یہ روز یادگار اگر یاد گار ہے تو عیش و شادمانی کے لیے نہیں بلکہ حسرت و نامرادی کے لیے، اگر یاد آور واقعات ہیں تو عطاء و بخشش کی فیروز مندی کے لیے نہیں بلکہ ناقدری و کفران نعمت کی مایوسی و حسرت سنجی کے لیے، پہلے اس کامرانی کی یاد گار تھا کہ ہم دولت قبولیت سے سرفراز ہوئے مگر اب اس نامرادی کی حسرت کو تازہ کرتا ہے کہ ہم نے اس کی قدر نہ کی اور ذلت و عقوبت سے دوچار ہیں ۔ پہلے اس وقت سعادت کی یاد تازہ کرتا تھا جو ہماری دولت و اقبال کا آغاز تھا اور اب اس دور مسکنت و ذلت کا زخم تازہ کرتا ہے جو ہماری عزت و کامرانی کا انجام ہے، پہلے یکسر جشن و نشاط تھا مگر اب یکسر ماتم و حسرت ہے۔ جشن تھا تو قرآن کریم کے نزول کی یاد گارکا تھا جس نے پہلے ہی دن اعلان کر دیا تھا۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا﴾
[1] مریم 19:60۔