کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 250
پس یہ مہینہ بنی اسرائیل کی عظمت کا اختتام اور مسلمانوں کے اقبال کا آغاز تھا اور اس نئے دور اقبال کا پہلا مہینہ’’شوال‘‘ سے شروع ہوتا تھا، اس لیے اس کے یوم و رود کو ’’عید الفطر‘‘ کا جشن ملی قرار دیا تا کہ افضال الٰہی کے ظہور اور قرآنِ کریم کے نزول کی یاد ہمیشہ قائم رکھی جائے، اور اس احسان و اعزاز کے شکریے میں تمام ملت مرحومہ اس کے سامنے سر بسجود ہو۔ ﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ ’’اور اس وقت کو یاد کرو جبکہ مکہ میں تم نہایت کم تعداد اور کم زور تھے اور ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں زبردستی پکڑ کر اڑا نہ لے جائیں لیکن اللہ نے تم کو جگہ دی، اپنی نصرت سے مدد کی عمدہ رزق تمہارے لیے مہیا کر دیا اور یہ اس لیے تھا کہ تم شکر ادا کرو۔‘‘[1] مگر یہ عیدالفطر کا جشن ملی! یہ ورودِ ذکر ورحمت الٰہی کی یادگار! یہ سربلندی و افتخار کی بخشش کا یاد آور! یہ یوم کامرانی و فیروز مندی و شادمانی! اس وقت تک کے لیے عیش و سرور کا دن تھا جب تک ہمارے سرتاج خلافت سے سربلند ہونے کے لیے اور جسم خلعت نیابت سے مفتخر ہونے کے لیے تھے۔ عزت و عظمت جب ہمارے ساتھ تھی اور اقبال و کامرانی ہمارے آگے دوڑتی تھی، اللہ کی نعمتوں کا ہم پر سایہ تھا اور اللہ کی بخشی ہوئی خلافت کے تخت جلال پر متمکن تھے لیکن اب ہمارے اقبال و کامرانی کا تذکرہ
[1] الأنفال 8:26۔