کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 248
داود کے بنائے ہوئے ’’ہیکل‘‘ کا دور عظمت ختم ہو چکا تھا اور وہ وقت آگیا تھا کہ اب اسماعیل کی چنی ہوئی دیواروں پر اللہ کا تخت جلال و کبریائی بچھادیا جائے۔ یہ نصب و عزل، عزت و ذلت، قرب و بعد اور ہجر و وصال کی رات تھی جس میں ایک محروم اور دوسرا کامیاب ہوا، ایک کو دائمی ہجر کی سرگشتگی اور دوسرے کو ہمیشہ کے لیے وصال کی کامرانی عطا کی گئی۔ ایک بھرا ہوا دامن خالی ہو گیا مگر دوسرے کی آستین افلاس بھر دی گئی، ایک پر قہرو غضب کا عتاب نازل ہوا۔ ﴿ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ﴾ ’’بنی اسرائیل کو (ان کی نافرمانیوں کی) سزا میں ذلت اور محتاجی میں مبتلا کر دیا گیا اور وہ اللہ کے بھیجے ہوئے غضب میں آگئے۔‘‘[1] لیکن دوسرے کو اس محبت کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ﴿ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ﴾ ’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور عمل بھی اچھے کیے اللہ کا ان سے وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت بخشے گا جس طرح ان سے پیشتر کی قوموں کو اس نے بخشی تھی۔‘‘[2] یہ اس لیے ہوا کہ زمین کی وراثت کے لیے ﴿ عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾کی شرط لگا دی تھی۔ بنی اسرائیل نے اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کی، اس کی نشانیوں کو جھٹلایا، اس کے
[1] البقرۃ 2:61۔ [2] النور 24: 55۔