کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 247
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾ ’’اور ہم نے زبور میں پندونصیحت کے بعد لکھ دیا تھا کہ بے شک زمین کی خلافت کے ہمارے صالح بندے وارث ہوں گے۔‘‘[1] اس قانون کے مطابق دو ہزار برس تک ’’بنی اسرائیل‘‘ زمین کی وراثت پر قابض رہے اور اللہ نے ان کی حکومتوں ، ان کے ملکوں اور ان کے خاندانوں کو تمام عالم پر فضیلت دی۔ ﴿ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ ’’اے بنی اسرائیل ان نعمتوں کو یاد کرو جو ہم نے تم پر انعام کیں اور (نیز ہم نے تم کو اپنی خلافت دے کر) تمام عالم پر فضیلت بخشی۔‘‘[2] یہی مہینہ تھا اور یہی لیلۃ القدر تھی جس میں اس الٰہی قانون کے مطابق نیابت الٰہی کا ورثہ بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کے سپرد کیا گیا۔ وہ پیمان محبت جو اللہ نے بیابان میں ’’اسحاق‘‘ سے باندھا تھا، وہ پیغام بشارت جو یعقوب کے گھرانے کو کنعان سے ہجرت کرتے ہوئے سنایا گیا تھا، وہ الٰہی رشتہ جو کوہ سینا کے دامن میں خدائے ابراہیم و اسحاق نے بزرگ موسیٰ کی امت سے جوڑا تھا اور سرزمین فراعنہ کی غلامی سے ان کو نجات دلائی تھی، اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ خود ان کی طرف سے توڑ دیا گیا تھا۔
[1] الأنبیآء 21:10۔ [2] البقرۃ 2:47۔