کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 244
ان کے لیے سب سے بڑا ماتم یہ تھا کہ دل اس کی یاد سے غافل، اور زبان اس کے ذکر سے محروم ہو جائے، اور سب سے بڑا جشن یہ تھا کہ سر اس کی اطاعت میں جھکے ہوئے اور زبان اس کی حمد و تقدیس سے لذت یاب ہو۔ ﴿ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩ ﴿١٥﴾ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا﴾ ’’ہماری آیتوں پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں ، کہ جب ان کو وہ یاد دلائی جاتی ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں ، اور اپنے پرورودگار کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور وہ کسی طرح کا تکبر اور بڑائی نہیں کرتے۔ رات کو جب سوتے ہیں تو ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور امید وبیم کے عالم میں کروٹیں لے کر اپنے پروردگار سے دعائیں مانگتے ہیں ۔ [1] ان کو پیش گاہِ الٰہی سے طاعت و شکر گزاری کے جشن کے لیے دو دن ملے تھے۔ پہلا دن( عید الفطر) کا تھا۔ یہ اُس ماہ مقدس کے اختتام اور افضال الٰہی کے دور جدید کے اولین یوم کا جشن تھا جس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام سے ان کو مخاطب فرمایا: ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ ’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآنِ کریم اول اول نازل کیا گیا۔ ‘‘[2] اسی مہینے کے آخری عشرے میں سب سے پہلے انہیں وہ نور صداقت اور کتابِ مبین
[1] السجدۃ 32: 16,15۔ [2] البقرۃ 2:185۔