کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 235
اچھی خاصی تعداد میں نکاسی ہوگئی ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا، اور بے شمار چھاپہ خانوں نے عید کارڈ چھا پنے شروع کردیے، یوں یہ منافع نجش کاربار، وباکی طرح پورے ملک میں پھیل گیا۔ چوہدری صاحب نے ایک سردآہ بھر کر کہا: ’’مجھے کافی عرصہ کے بعد احساس ہواکہ سرکارِ برطانیا نے ایک بے حد مذموم مقصد کے لیے مجھے آلۂ کاربنایا ہے۔ میں نادم ہوں کہ میں نے ایک بری رسم کا آغاز کیا، جوسراسراسرافِ بے جاہے، آج عید کارڈوں کی وجہ سے کروڑں مسلمان کئی کروڑ روپے اس قبیح رسم پرضائع کردیتے ہیں ، آج جب میں دیکھتا ہوں کہ عید کارڈوں پرنیم عریاں تصاویر شائع ہورہی ہیں ، تو میں شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں کہ اس فحاشی کا آغاز میرے ہاتھوں ہوا، میں نے سرکارِ برطانیا کے لیے بڑے بڑے کام کیے، لیکن عید کارڈ کی رسم بد سے بڑا ، اور قوم دشمن کام کوئی نہیں کیا، یہ گناہِ عظیم ہے، آپ سب میری بخشش کے لیے دعا کریں اور یہ بھی کوشش کریں کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر میری طرح ملت فروشی کے فعل قبیح میں ملوث نہ ہوں ۔‘‘ یہ واقعہ چوہدری احمد بخش نے اپنے بیٹے کے روزنامہ ’’نئی روشنی ‘‘ کے عملے کو 1962ء کے اواخرمیں اس وقت سنایا، جب عملے نے ان کے اعزاز میں ایک چائے پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ اس واقعے کو حارث غازی، اسسٹنٹ ایڈیٹر روزنامہ ’’نئی روشنی‘‘ نے قلم بند کیا اور آخر میں لکھا کہ میں نے یہ واقعہ سننے کے بعد 1962ء کے بعد سے کسی کو کبھی کوئی عید کا رڈ نہیں بھیجا۔ غور کا مقام ہے کہ جس انگریز کو ہمارے اکابر نے بڑی قربانیوں کے بعد برصغیر