کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 234
لیے بھی مفت سفر کی سہولت حاصل کرلی، اب مجھے کارڈفروخت کرنے پر ایک دھیلہ ملنا تھا، سفرمفت تھا، یعنی ’’چپڑی اور وہ بھی دودو۔‘‘ رمضان المبارک کے دوران، میں اور میرے یہ تینوں ساتھی دہلی سے کلکتہ تک سفر کے لیے نکل گئے ، اور ہربڑے اسٹیشن پراتر کر کتابو ں اور اسٹیشنری کی دکانوں پر جاکرعید کارڈ فروخت کیے اور ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں پانچ ہزار سے کچھ زاید عید کارڈ فروخت کردیے، جس کا گوشوارہ محکمہ داخلہ کودے کر واجبات وصول کرلیے گئے ۔ بقرعید کی آمد سے ایک ماہ پہلے ہم پھرمہم پر نکلے، اس مرتبہ ہم نے کراچی سے راس کماری تک عید کارڈفروخت کیے، اگلے برس محکمہ داخلہ نے بیس ہزار عید کارڈ دیے، اس دفعہ مذہبی تصاویر کے ساتھ ایسے کارڈ بھی دیے گئے جن پر خوب صورت بچوں ، پھلوں اور پھولوں کی تصویر یں تھیں ، ان بچوں کو عربی لباس پہنائے گئے تھے، حالاں کہ وہ شکل وصورت سے انگریز بچے ہی لگتے تھے، یہ بھی بہ آسانی فروخت ہوگئے۔ تیسرے برس جو کارڈ ملے ان میں بچوں اور بچیوں کے لباس مختصر اور جدید فیشن کے مطابق کر دیے گئے، چوتھے برس ہم نے پچاس ہزار سے زاید کارڈ فروخت کیے۔یوں ہم نے اچھی خاصی دولت کمائی۔ جب ہم حساب کرنے لگے تو سیکریٹری صاحب نے رقم اداکرنے کے بعد کہا کہ آئندہ کوئی کارڈ نہیں ملے گا، اگر اس سلسلے کو جاری رکھنا چاہوتوتم خود چھپوالو، اگلے رمضان المبارک سے پہلے ہی پورے برصغیر کے کتب فروشوں کے خطوط اور آرڈر موصول ہونے لگے، اب ہم مالی لحاظ سے اس قابل ہوگئے کہ اس کاروبارکو خودجاری رکھ سکتے تھے، ہم نے مختلف چھاپہ خانوں سے عید کارڈ چھپوائے، اگرچہ ان عید کارڈوں کی چھپا ئی انگلینڈ کے معیار کی نہیں تھی ، تاہم پھر بھی