کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 233
یہ قبیح رسم انگر یز کے دورِغلامی کی یاد گار ہے اور اس قدرترقی کر چکی ہے کہ شایدہی کوئی مسلمان گھر انہ اس سے محفوظ ہوگا۔عید کارڈ کا ثبوت نہ تو قرآن وحدیث میں ملتا ہے نہ فقہ میں ، یہاں تک کہ اسلامی تاریخ بھی اس کے تذکرے سے خالی ہے، اب تو یہ بری رسم پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ انگریزنے یہ رسم کس طرح شروع کی؟ اس کے بنیادی کردار کا اعترافِ جرم ملا حظ فرمائیں : کراچی کے اخبار روزنامہ ’’نئی روشنی ‘‘ کے مالک ومدیر جی اے چوہدری کے والداحمد بخش چوہدری کہتے ہیں : ’’مجھے اعتراف ہے کہ ایک دورتھاجب میں کسی مجبوری کے تحت حکومت برطانیا کا آلۂ کارتھا، میں برصغیر میں انگریزوں کے مفادات کے لیے مختلف کام انجام دیتا تھا، جس کے عوض مجھے معاشی سہولتوں کے علاوہ دیگر مراعات بھی حاصل تھیں ،جیسے ہی پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی مجھے محکمہ داخلہ کے انگر یز سیکریٹری نے عید کارڈ دکھائے جو بطورِ خاص انگلینڈ سے چھپ کر آئے تھے، ان پر خانہ کعبہ، مسجد نبوی، کلمہ طیبہ اور براق وغیرہ کی خوب صورت رنگین تصویریں تھیں ، مجھے کہا گیا کہ یہ تمام عید کارڈ فروخت کیے جائیں گے، ایک عید کا رڈ ایک دھیلے میں فروخت کرنا ہوگا، بعدازاں حکومت برطانیا مجھے ہر فروخت شدہ کارڈ کے عوض ایک ٹکا(دوپیسے) دے گی ، بشر طیکہ میں 5ہزار عید کارڈ فروخت کروں ۔ مجھے سختی سے تنبیہ کی گئی کہ میں کسی کوبھی کوئی عید کارڈ بلاقیمت نہ دوں ، ورنہ میرے حق میں اچھا نہ ہوگا، حکو مت کا خصوصی کارندہ ہونے کی بنا پر مجھے پورے برصغیر میں ٹرین پر مفت سفر کی سہولت تھی ، میں نے مزیدتین افراد کے