کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 231
اس حدیث سے حسب ذیل مسائل معلوم ہوئے: 1. صدقۃ الفطر کے لیے صاحب نصاب یا صاحب حیثیت ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ ہر مسلمان پر فرض ہے، امیر ہو یا غریب۔ غریب بھی صدقۃالفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ دوسرے لوگوں کے ذریعے سے اسے اس پر پھر لوٹا دے گا۔ 2. یہ ہر چھوٹے بڑے حتیٰ کہ غلام اور نوکر چاکروں پر بھی فرض ہے۔ ان کے بڑے اور آقا چھوٹوں اور ماتحتوں کی طرف سے صدقۃالفطر ادا کریں۔ 3. اس کی مقدار ایک صاع حجازی ہے جو ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔ ہر شخص کی طرف سے ڈھائی کلو غلہ ادا کیا جائے۔ بہتر ہے کہ کوئی جنس نکالی جائے لیکن اس کی قیمت ادا کرنا بھی جائز ہے۔ تاہم یہ رخصت ہے، اصل مسئلہ غلّہ دینا ہی ہے۔ 4. اس کے مستحق وہی ہیں جو زکاۃ کے مستحق ہوں ، مساکین و غربا اور یتیم و بیوگان وغیرہ۔ یا دینی مدارس کے طلباء۔ 5. اسے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے۔ بعض لوگ عیدگاہ پہنچ کر وہاں ادا کرتے ہیں ، ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔ 6. اسے عید سے دو تین دن قبل بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اسے عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ادا کر دیا کرتے تھے۔ ((کَانُوا یُعْطُونَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِیَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ)) [1]
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر علی الحر والملوک،حدیث: 1511۔