کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 226
ہمارے خیال میں اس رجحان کی بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے نہ کہ حوصلہ افزائی۔ بعض لوگ اس کے لیے صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جماعت تراویح کا اہتمام شروع ہوا تو (آخری) نصف رمضان میں وہ قنوت نازلہ پڑھتے تھے۔ (حدیث: 1100) یہ البتہ عہدِ صحابہ کی ایک نظیر ہے جس پر عمل کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے لیے مناسب طریقہ یہ لگتا ہے کہ اس میں قنوت نازلہ سے تجاوز نہ کیا جائے یعنی اس کو کافروں کے لیے بددعا، مسلمانوں کی مغفرت اور ان کی فتح و نصرت کی دعا ہی تک محدود رکھا جائے، اس میں دیگر تمام دعاؤں کو شامل کرکے زیادہ سے زیادہ لمبا نہ کیا جائے۔ بلکہ بہتر ہے کہ اس کی ضرورت سمجھی جائے تو عشاء یا فجر کے فرضوں میں اس کا اہتمام کیا جائے جو حدیث کے مطابق ہو گا اور زیادہ صحیح ہوگا، یہ کیا ضروری ہے کہ دعائے قنوتِ نازلہ وتر ہی میں پڑھی جائے؟ شبینہ کا اہتمام رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ، بالخصوص اس کی طاق راتوں میں شبینے کا اہتمام بھی عام ہے۔ اس میں بعض جگہ تو ایک ہی حافظ صاحب ہوتے ہیں جو ایک ایک رات میں دس دس یا اس سے کم و بیش پارے پڑھتے ہیں ، اس طرح زیادہ سے زیادہ تین راتوں میں قرآن مجید ختم کردیاجاتا ہے۔ ان صاحب کی رفتار بالعموم اتنی تیز اورالفاظ و حروف کی ادائیگی ایسی ہوتی ہے کہ یعلمون، یفقھون کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ ظاہر بات ہے اس طرح قرآن کا پڑھنا سننا باعثِ اجر نہیں بلکہ موجبِ