کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 223
تک مختلف علمائے کرام کے مواعظ و خطبات ہوتے ہیں اور پھر سحری کا بھی وہیں انتظام ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن و حدیث کی محفلیں ’’محفل ذکر‘‘ ہیں ۔ اس اعتبار سے اس طریقۂ ذکر کو ذکر سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ شبِ قدر میں ذکر کا یہ طریقہ مسنون ہے؟ اسلاف (صحابہ و تابعین) میں سے کسی نے یہ طریقہ اختیار کیا؟ جواب یقینا نفی میں ہے کیونکہ شبِ قدر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے نہ صحابہ و تابعین میں سے کسی نے، اس لیے شبِ قدر میں یکسوئی سے عبادت اور ذکر الٰہی ہی کاطریقہ مستحسن اور پسندیدہ ہوگا جو عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سمیت خیر القرون میں رہا۔ اور وہ طریقہ کیا ہے؟ انفرادی طورپر شب بیداری اور پھر ذکر و عبادت۔ جس میں قیام اللیل (نفلی نماز) دعا و مناجات، توبہ و استغفار اور تلاوتِ قرآن وغیرہ کا اہتمام ہو۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ساری رات بیدار رہا جائے کیونکہ ایسا کرنا انسانی عادت کے خلاف ہے اور کسی انسان کے لیے سخت مشقت کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ’’اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر بات کا مکلف نہیں ٹھہراتا۔‘‘[1] بنا بریں ایک شخص جتنا وقت آسانی سے جاگ کر لیلۃ القدر میں اللہ کی عبادت کر سکتا ہے، اتنی عبادت کرنے سے امید ہے کہ اسے شبِ قدر کی فضیلت حاصل ہوجائے گی، اس کے لیے ساری رات جاگنا اور مسلسل مصروفِ عبادت رہنا یا وعظ و تقاریر کی
[1] البقرۃ 286:2۔