کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 22
((اَلْأَشَبَہُ أَنْ یُعْتَبَرُ لِأَنَّ کُلَّ قَوْمٍ مُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَہُمْ وَانْفِصَالُ الْہَلَالِ عَنْ شُعَاعِ الشَّمْسِ یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ المَطَالِعِ کَمَا فِي دُخُولِ وَقْتِ الصَّلاۃِ وَ خُرُوجِہِ یَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَقْطَارِ)) ’’زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اختلافِ مطالع معتبر ہے، اس لیے کہ ہر جماعت اسی کی مخاطب ہوتی ہے جو اُس کو در پیش ہو اور چاند کا سورج کی کرنوں سے خالی ہونا مطالع کے اختلاف سے مختلف ہوتا رہتا ہے، جیسے نمازوں کے ابتدائی اور انتہائی اوقات علاقائی اختلاف کی بنا پر مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔‘‘ پھر اس موضوع پر مفصل بحث کرنے کے بعد علامہ لکھنوی نے جو جچاتلا فیصلہ کیا ہے، وہ انہی کے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے۔ ’’اصح المذاہب عقلا ’’و نقلا‘‘ ہمیں است کہ ہر دو بلدہ کہ فیما بین آنہا مسافتے باشد کہ دراں اختلافِ مطالع می شودو تقدیرش مسافت یک ماہ است، دریں صورت حکم رؤیت ایک بلدہ بہ بلدۂ دیگر نخواہد شدو دربلادِ متقارِبہ کہ مسافت کم از یک ماہ داشتہ باشند حکم رؤیت بلدہ بہ بلدۂ دیگر لازم خواہد شد۔‘‘[1] ’’عقل و نقل ہر دو لحاظ سے سب سے صحیح مسلک یہی ہے کہ ایسے دو شہر جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ ان کے مطلع بدل جائیں جس کا اندازہ ایک ماہ کی مسافت سے کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک شہر کی رؤیت دوسرے شہر کے لیے معتبر نہیں ہونی چاہیے اور قریبی شہروں میں جن کے مابین ایک ماہ سے کم کی مسافت ہو ایک شہر میں رؤیت دوسرے شہر کے لیے لازم اور ضروری ہوگی۔‘‘
[1] مجموعۃ الفتاوٰی علٰی ہامش خلاصۃ الفتاوٰی، جلد 1، ص: 256,255۔