کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 216
البتہ نفلی روزوں کا معاملہ رمضان المبارک کے فرضی روزوں سے مختلف ہے۔ اگر کوئی عورت نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرتی ہے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر اس کا خاوند جوان ہے اور وہ اپنے جنسی جذبات کے پیش نظر عورت کے نفلی روزوں کو پسندنہیں کرتا اور وہ اسے ان سے روکتا ہے تو عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ مرد کے جذبات و خواہشات کا احترام کرے اور زیادہ نفلی روزوں سے گریز کرے، جب وہ اس کی اجازت دے تو رکھ لے اور جب روکے تو رک جائے۔ یہاں نفلی عبادت کے مقابلے میں مرد کی اطاعت زیادہ ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ((لَا تَصُمِ الْمرأۃُ وَ بَعْلُہَا شَاہِدٌ إِلَّا بِإِذْنِہِ)) ’’عورت خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔‘‘[1] اس سے مراد نفلی روزہ ہے، فرضی روزوں میں تو اجازت لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند اگر سفر پر ہو یا سارا دن گھر پر نہ رہتا ہو تو اس صورت میں عورت نفلی روزے بھی بغیر اجازت رکھ سکتی ہے کیونکہ حدیث میں موجودگی (شاہدٌ) کی صراحت ہے، گھر پر موجود گی ہی کی صورت میں مرد کو عورت کی خواہش ہوسکتی ہے جب وہ گھر پر ہی نہیں ہے تو اس کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ عورت نے دن روزے کے ساتھ گزارا ہے یا روزے کے بغیر۔ البتہ ایک اور صورت میں غیر موجودگی میں بھی خاوند عورت کو نفلی روزہ رکھنے سے
[1] صحیح مسلم، الزکاۃ، باب ما أنفق العبد من مال مولاہ، حدیث: 1026۔