کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 211
یہ استدلال کیا ہے کہ کفارہ صرف مردہی پر عائد ہوگا، عورت پر نہیں ، عورت صرف روزے کی قضا دے گی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ جب آپ نے اس فعل کا کفارہ بیان فرمادیا تو اس حکم میں عورت بھی اسی طرح شامل ہوگی جس طرح دوسرے احکام میں وہ مردوں کے ساتھ شامل ہوتی ہے، حالانکہ ان میں بھی عورتوں کی شمولیت کی صراحت نہیں ہوتی۔ ایک تیسری رائے یہ ہے کہ اگر اس فعل میں عورت کی رضامندی بھی شامل ہو تو مرد کی طرح وہ بھی گناہ گار اور کفارہ ادا کرنے کی پابند ہوگی، بصورت دیگر وہ مُکْرَہَہ سمجھی جائے گی اور اس پر صرف روزے کی قضا لازم ہوگی، کفارے کی ادائیگی نہیں ۔ جیسے مثال کے طور پر عورت کسی عذر کی وجہ سے روزے ہی سے نہ ہو اور خاوند روزے سے ہو اور وہ ہم بستری کرلے تو قضا اور کفارہ دونوں مرد ہی پر عائد ہوگا، عورت تو روزے کی حالت ہی میں نہیں تھی۔ اسی طرح اگر روزے کی حالت میں عورت کی رضامندی کے بغیر خاوند نے ہم بستری کرلی تو کفارے کی ادائیگی صرف مرد کے ذمے ہوگی، عورت صرف روزے کی قضا دے گی۔ ایک چوتھی رائے امام شافعی کی ہے، وہ یہ ہے کہ عورت رضامند ہو یا نا رضامند (مُکْرَہَہ) کفارہ صرف مرد ہی پر عائد ہوگا، عورت پر نہیں ۔ عورت پر صرف قضا لازم ہوگی۔ ایک پانچویں رائے یہ ہے کہ عورت کا روزہ باطل ہی نہیں ہو گا، اس لیے اس پر روزے کی قضا بھی لازم نہیں ۔[1]
[1] فتویٰ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ، فتاویٰ ارکانِ اسلام، ص: 191۔