کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 21
فِیہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ لَا یَلْزَمُ… وَ فِي الْقُدورِيِّ إِنْ کَانَ بَیْنَ الْبَلْدَتَیْنِ تَفاوُتٌ لَا یَخْتَلِفُ بِہِ الْمَطَالَعُ، یَلْزَمُہُ)) ’’ایک شہر والے جب چاند دیکھ لیں تو کیا تمام شہر والوں کے حق میں رؤیت لازم ہوجائے گی؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے: لازم نہیں ہوگی… اور قدوری میں ہے کہ اگر دو شہروں کے درمیان ایسا تفاوت ہو کہ مطلع تبدیل نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں رؤیت لازم ہوگی۔‘‘ صاحبِ ہدایہ اپنی کتاب ’’مختارات النوازل‘‘ میں ان الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں : (( أَہْلُ بَلْدَۃٍ صَامُوا تِسْعَۃٍ وَّعِشْرِینَ یَوْمًا بِالرُّؤیَۃِ وَ أَہْلُ بَلْدَۃٍ أُخْرٰی صَامُوا ثَلَاثِینَ بِالرُّؤْیَۃِ فَعَلَی الْأَوَّلَیْنَ قَضَائُ یَوْمٍ إِذَا لَمْ یَخْتَلِفِ الْمَطَالِعُ بَیْنَہُمَا وَ أَمَّا إِذَا اخْتَلَفَتْ لَا یَجِبُ الْقَضَائُ)) ’’ایک شہر والوں نے رؤیتِ ہلال کے بعد29 روزے رکھے اور دوسرے شہر والوں نے چاند دیکھنے ہی کی بنا پر 30 روزے رکھے تو اگر ان شہروں میں مطلع کا اختلاف نہ ہو تو 29 روزے رکھنے والوں کو ایک دن کی قضا کرنی ہوگی۔ اور اگر دونوں شہروں کا مطلع جداگانہ ہو تو قضا کی ضرورت نہیں ۔‘‘ محدث علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے کنزالدقائق کی شرح ’’تبیین الحقائق‘‘ میں اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے۔ انہوں نے اختلافِ مطالع کی بحث میں فقہاء احناف کا اختلاف نقل کرنے کے بعد خودجو فیصلہ کیا ہے، وہ یہ ہے: