کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 208
اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس میں راجح بات یہ ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں مریض کے حکم میں ہیں ، یعنی جتنے روزے وہ نہ رکھ سکیں تو مریض کی طرح بعد میں رکھ لیں ، مریض کو جس طرح فدیۂ طعام کا حکم نہیں ہے، اسی طرح حاملہ اور مُرضعہ کے لیے بھی یہ حکم نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ (الصَّوْمَ و) شَطْرَ الصَّلَاۃِ وَعَنِ الْحَامِلِ اَوِالْمُرْضِعِ الصَّوْمَ اَوِالصِّیَامَ)) ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ معاف کردیا اور آدھی نماز بھی اور حاملہ اور مُرضعہ عورت سے روزہ معاف کردیا۔‘‘[1] اس حدیث میں روزہ معاف کرنے سے مراد، روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے کیونکہ مسافر اور مریض کو (جس کے تندرست ہونے کی امید ہو) یہ رخصت ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ بعد میں صحت یاب ہونے یا سفر سے واپس آنے کے بعد روزے رکھ لیں ۔ لیکن ان کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ روزہ بالکل ہی نہ رکھیں یا روزوں کی جگہ فدیۂ طعام دے دیں ۔ اسی طرح جب اس حدیث میں حاملہ اور مرضعہ کے لیے بھی وہی حکم بیان کیا گیا ہے جو مسافر کا ہے تو گویا ان کے لیے بھی یہی حکم ہوگا کہ حمل یا رضاعت کے دوران میں اگر تکلیف کی وجہ سے ان کو رمضان کے روزے چھوڑنے پڑیں تو ان کو اس کی اجازت و رخصت تو ہے لیکن بعد میں ان کو ان
[1] جامع الترمذي، الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی الافطار للحبلٰی والمرضع، حدیث: 715۔