کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 206
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے: ((وَلَمْ یَثْبُتْ فِیہِ شَيْئٌ مَرْفُوعٌ وَإِنَّمَا جَائَ فِیہِ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ)) ’’اس کی بابت کوئی مرفوع حدیث ثابت نہیں ہے، صرف چند صحابہ کا قول منقول ہے۔‘‘ اور بحث کے آخر میں فرماتے ہیں : أَمَّا الإِْْطْعَامُ فَلَیْسَ فِیہِ مَا یُثْبِتُ وَلَا یَنْفِیہِ (بلاوجہ قضائے رمضان میں تاخیر جائز نہیں ہے (تاہم اگر ہوجائے) تو اس صورت میں قضائی روزوں کے ساتھ کھانا کھلانا بھی ضروری ہے یا نہیں ؟) اس کی بابت اثبات کی کوئی دلیل ہے نہ نفی کی۔‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دلیلِ نافی کی جو نفی فرمائی ہے، اس کی وجہ غالبًا بعض صحابۂ کرام کا اِطْعَامِ طعام کا قائل ہونا ہے کیونکہ مرفوع حدیث نہ ہونے کی صورت میں صحابۂ کرام کا عمل بھی حجت بن سکتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِطْعَامِ طعام اگرچہ ضروری نہیں ہے تاہم اگر روزوں کے ساتھ اس کا بھی اہتمام کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے اور صدقہ خیرات اور اطعامِ مساکین بہر حال ایک نیک عمل ہے اور کوتاہیوں کے ازالے کے لیے نیکیوں کا اہتمام بھی منصوص ہے۔﴿ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ﴾ [2] ’’نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ۔‘‘ بنابریں اِطْعَامِ طعام
[1] فتح الباري، باب مذکور:4/ 244-242 [2] ہود 114:11۔