کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 205
روزے رکھنے کے بعد گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا مشکل ہوجاتی ہے۔ کئی عورتیں تو اس کی پروا ہی نہیں کرتیں اور سالہا سال کے روزوں کی قضا ان کے ذمے ہو جاتی ہے۔ لیکن خوفِ الٰہی اور فکر آخرت رکھنے والی خواتین ایسا نہیں کرتیں اور نہ ایسا کرنا ہی چاہیے اور رمضان المبارک کے روزوں کی قضا زیادہ سے زیادہ دوسرا رمضان کے آنے سے پہلے پہلے ادا کردینی چاہیے، مردوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ تاہم اگر کبھی ایسا نہ ہوسکے اور دوسرا رمضان آجائے تو پھر کیا کیا جائے؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ پھر وہ عورت (اورمرد) پہلے رمضان کے روزوں کی قضا کے ساتھ ساتھ فدیۂ طعام بھی روزانہ دے۔ لیکن یہ رائے بعض آثارِ صحابہ کی بنیاد پر ہے، اس کی کوئی منصوص دلیل نہیں ہے۔ بنابریں دونوں رمضان کے روزوں کی صرف قضا دے دینا ہی کافی ہے، پہلے رمضان کی قضا کے ساتھ اِطْعَامِ مسکین ضروری نہیں ۔ امام بخاری کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے، چنانچہ وہ باب مَتٰی یُقْضٰی قَضَائُ رَمَضَانَ؟ کے ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں : وُ یُذْکَرُ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ مُرْسَلًا وَابْنِ عباسٍ أَنَّہ یَطْعِمُ، وَ لَمْ یَذْکُرِ اللّٰہَ تَعَالَی الإطْعَامَ، إِنَّمَا قَالَ ’فَعِدَّۃٌ مِنْ أَیَّامٍ اُخَرَ۔ ’’حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرسلاً مذکور، یعنی ان کا قول ہے کہ وہ ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے لیکن اللہ تعالیٰ نے کھلانے کا ذکر نہیں کیا، صرف یہ فرمایا ہے کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلو۔‘‘[1]
[1] صحیح البخاري، الصوم، باب مذکور، حدیث: 1950سے پہلے۔