کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 195
’’پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور بغض ہو۔ ان کی بابت کہا جاتا ہے کہ جب تک یہ باہم صلح نہ کر لیں اس وقت تک ان کی مغفرت کے معاملے کو مؤخر کر دو۔ صلح کرنے تک ان کے معاملے کو مؤخر کر دو۔ ان کے باہم صلح کرنے تک ان کے معاملے کو مؤخر کر دو۔‘‘[1] اس حدیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپس میں بغض وعناد اور ترک تعلق کتنا بڑا جرم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنے اور تعلق ترک کیے رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے، چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا: ((لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، فَمَنْ ہَجَرَ فَوْقَ ثَلَاثٍ فَمَاتَ دَخَلَ النَّارَ)) ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تعلق منقطع کیے رکھے۔ اور جس نے تین دن سے زیادہ تعلق توڑے رکھا اور اسی حال میں اس کو موت آگئی تو وہ جہنمی ہے۔‘‘[2]
[1] صحیح مسلم، البر والصلۃ والأدب، باب النھي عن الشحناء،حدیث: 2565۔ [2] مسند أحمد: 183,176 وسنن أبي داود، الأدب، باب في ھجرۃ الرجل أَخَاہ، حدیث: 4914 وقال الألباني، إسنادہ صحیح، اُنظر تعلیق المشکاۃ: 1400/3۔