کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 192
’’مسلمان کی اپنے (مسلمان) بھائی کے حق میں غائبانہ دعا، قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر پر ایک مقررہ فرشتہ ہوتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو اس پر مقررہ فرشتہ کہتا ہے ’آمین(اے اللہ! اس کی دعا قبول فرما لے ) اور تجھے بھی اس کی مثل اللہ دے۔‘‘[1] 14. بددعا سے اجتناب کیا جائے انسان فطرتًا کمزور اور جلد باز ہے، اس لیے جب وہ کسی سے تنگ آجاتا ہے تو فوراً بد دعائیں دینی شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ کو بھی بد دعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔ اس لیے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تَدْعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلٰی أَوْلَادِکُمْ، وَلَا تَدْعُوا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ، لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللّٰہِ سَاعَۃً یُّسْأَلُ فِیہَا عَطَائٌ فَیَسْتَجِیبُ لَکُمْ)) ’’اپنے لیے بددعا نہ کرو، اپنی اولاد کے لیے بد دعا نہ کرو، اپنے مال اور کاروبار کے لیے بد دعا نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری بددعا ایسی گھڑی کے موافق ہو جائے، جس میں اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ عطا فرما دیتا ہے جس کا وہ سوال کرتا ہے اور یوں وہ تمھاری بددعائیں تمہارے ہی حق میں قبول کر لی جائیں۔‘‘[2]
[1] صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فضل الدعاء بظھر الغیب،حدیث: 2733۔ [2] صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب حدیث جابر الطویل، وقصۃ أبی الیسر،حدیث: 3009۔