کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 190
مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ کہتا ہے: میں نے دعا کی اور بار بار دعا کی۔ لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی، چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ سست اور مایوس ہو جاتا اور دعا کرنا چھوڑ بیٹھتا ہے۔‘‘ [1] نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پراگندہ حال، گرد وغبار میں اٹا ہوا اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتا اور کہتا ہے: ((یَارَبِّ یَا رَبِّ! وَ مَطْعَمُہُ حَرَامٌ، وَ مَشْرَبُہُ حَرَامٌ، وَ مَلْبَسُہُ حَرَامٌ، وَ غُذِیَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟)) ’’اے میرے رب! اے میرے رب! (کرتے ہوئے دعا کرتا ہے)، حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس بھی حرام کا ہے، حرام کی غذا ہی اس کی خوراک ہے تو ایسے شخص کی دعا کیوں کر قبول ہو سکتی ہے؟‘‘[2] مذکورہ احادیث سے ان آداب وشرائط کی وضاحت ہو جاتی ہے جو اس عنوان کے آغاز میں بیان کیے گئے ہیں ۔ ان آداب وشرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعا کی جائے تو یقینا وہ دعا قبول ہوتی ہے یا اس کے عوض کچھ اور فوائد انسان کو حاصل ہو جاتے ہیں ، جیسے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح البخاري، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل،حدیث: 6340، وصحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان أنہ یستجاب للداعی مالم یعجل… الخ،حدیث: 2735 واللفظ لمسلم۔ [2] صحیح مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا،حدیث: 1015۔