کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 19
وہ ان کے نقطۂ نظر کے لیے صریح اور دو ٹوک نہیں ہے، البتہ یہ بات بہت واضح ہے کہ نمازوں کے اوقات میں سبھی اختلافِ مطالع کا اعتبار کرتے ہیں ۔ اگر ایک جگہ ظہر یا عشاء کا وقت ہوچکا ہو اور دوسری جگہ نہ ہوا ہو تو جہاں وقت نہ ہوا ہو وہاں کے لوگ محض اس بنا پر ظہر و عشاء کی نماز ادا نہیں کر سکتے کہ دوسری جگہ ان نمازوں کا وقت ہوچکا ہے یا اگر ایک جگہ مہینہ کا 28 واں ہی دن ہے اوردوسری جگٔ 29 واں ، جہاں چاند نظر آگیا تو محض اس بنا پر 28 ویں تاریخ ہی پر مہینہ کرکے اگلے دن رمضان یا عید نہیں کی جائے گی کہ دوسری جگہ چاند نظر آگیا ہے۔ اس لیے یہ بات فطری اور انتہائی منطقی ہے کہ مطلع کے اختلاف کا اور اسی لحاظ سے رمضان اور عید کا اختلاف تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ فقہائے متقدمین کے دور میں اول تو معلوم کائنات کی یہ وسعت دریافت ہی نہ ہوئی تھی اور ممالک ہی نہیں کئی براعظموں سے دنیا بے خبر اور نا آشنا تھی، پھر اس میں بھی مسلمان جزیرۃ العرب اور خلیجی علاقوں میں محدود تھے، اس وقت تک شاید یہ بات ممکن رہی ہو اور ان کے مطلع میں اتنا فرق نہ رہا ہو کہ اس کو الگ الگ سمجھا جائے، اس لیے فقہاء نے ایسا کہا ہے، چنانچہ خود فقہائے احناف میں بھی مختلف محققین نے اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا ہے۔ حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی فرنگی محل نے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور مختلف فقہاء کی عبارتیں نقل کی ہیں جو یہاں ذکر کی جاتی ہیں ، مشہور کتاب ’’مراقی الفلاح‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں : ((وَ قِیلَ یَخْتَلِفُ ثُبُوتُہُ، بِاخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ وَاخْتَارَہٗ صَاحِبُ التَّجْرِیدِ کَمَا إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ عِنْدَ قَوْمٍ وَ غَرَبَتْ عِنْدَ غَیْرِہِمْ