کتاب: رمضان المبارک فضائل ، فوائد و ثمرات - صفحہ 178
طرح گھر میں پڑھنے کو فرض نماز سے زیادہ بہتر (خَیْر) قرار دیا گیا ہے)۔ اس کو شارحین حدیث نے اگرچہ تطبیق سے تعبیر کیا ہے لیکن راقم کے خیال میں یہ تطبیق نہیں ہے بلکہ دونوں حدیثوں کا اپنی اپنی جگہ ظاہری مفہوم ہے اور اس اعتبار سے ان کے درمیان تضاد تسلیم کرنا بھی صحیح نہیں ہے، دونوں کا اپنی اپنی جگہ صحیح مفہوم ہے اور ان میں باہم کوئی ٹکراؤ (تضاد) نہیں ۔ کیونکہ دونوں حدیثوں میں مطلق نفل کا بیان نہیں ہے بلکہ دونوں حدیثوں کا تعلق نماز تراویح سے ہے اور دونوں میں جو کچھ کہا گیا ہے اسی کی بابت کہا گیا ہے، ایک میں اس کے باجماعت ادا کرنے کی فضیلت کا بیان ہے اور وہ ہے ساری رات کے قیام کے برابر اجر۔ جبکہ دوسری حدیث میں گھر میں پڑھنے کو اس سے بھی زیادہ بہتر (افضل) بتلایا گیا ہے۔ ان میں باہم کیا تضاد ہے؟ کوئی تضاد نہیں ، فللّٰہ الحمد ۔ اب مسئلہ رہ جاتا ہے عمل کا۔ ان دونوں صورتوں میں جو شخص جون سی بھی صورت اختیار کرے گا، اس کے مطابق اس کو فضیلت اور اجر حاصل ہو گا۔ اگر کوئی شخص واقعی رات کے آخری پہر میں (جوکہ نماز تہجد کا افضل وقت ہے اور تراویح بھی نماز تہجد ہی ہے) اسے گھر میں انفرادی طور پر پڑھتا ہے تو یقینا اس کا یہ عمل باجماعت پڑھنے والوں سے زیادہ بہتر اور افضل ہے، اس کی افضلیت کا ہم انکار نہیں کر سکتے۔ البتہ اس پر عمل صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں جن کا مستقل طور پر نماز تہجد ادا کرنے کا معمول ہے، دوسرے حضرات کے لیے اس پر عمل کرنا نہایت مشکل ہے تاہم اگر کوئی کر لیتا ہے تو وہ یقینا اس افضل عمل کے اجر کا مستحق ہو گا، یعنی باجماعت پڑھنے والوں سے زیادہ اجر کا۔